Prof.M.Ismail
@ProfMIsmail
Ex Assistant Professor Government College Peshawar. Human Rights Defender
سوشل میڈیا سے پتہ چلا کہ شہباز شریف نے اج تیراہ میں مظاہرین پر گولیاں چلا کر انہیں مارنے اور زخمی کرنے کے بعد مولیوں کے ذریعے فی قتل پندرہ لاکھ اور فی زخمی دو لاکھ روپے دے کر معاملہ رفع دفع کرنے والے فوجی اہلکاروں کو الخوارج کے نام سے یاد کیا ہے اور اس واقعے کی مذمت کی ہے۔

خبر ہے کہ شانہ بشانہ کے یاروں نے آج پھر تیراہ میں گولیاں چلائیں اور مظاہرین کو قتل اور زخمی کرنے کے بعد سودا بھی مکمل کردیا۔
کیا اس سے پختون یہ تاثر دنیا کو دینا چاہتے ہیں کہ پختون ایک ایسی قوم ہے جو اپنی لاشیں بہت سستی فروخت کرتی ہے اور اس کاروبار میں دلالی کا کام مذہبی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔

دو سوال پوچھتا ہوں۔ مرید غصہ نہ ہو۔ ٹھنڈے دماغ سے مجھے سمجھائے ا۔ سیاسی جماعتوں کی وجود کا کیا مقصد ہوتا ہے؟ 2۔سیاسی لیڈر کا کیا کام ہوتا ہے؟
عمران خان کے تجربےاور نواز شریف کی بار بار پٹائی کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کو کامیابی کا ایک ہی راستہ نظر آرہا ہے اور وہ ہے اسٹبلشمنٹ کی اشیرباد حاصل کرنا۔ تمام سیاسی جماعتیں اس راستے پر ایک دوسرے سے آگے جانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں۔
ایک تجربہ ناکام ہو جائے تو پھر نیا تجربہ کرنا چاہیے کیونکہ ناکام تجربہ بار بار دھرانے کا نتیجہ وہی بار بار ناکامی ہوگی۔
پختونخوا میں جرگوں کے نام پر سیاسی اور سول سوسائٹی کے ادرواں اور فعال ارکان کی شمولیت سے کئی چھوٹے بڑے بے نتیجہ اجتماع ہوئے. سب سے بڑا اجتماع پی ٹی ایم کا تھا۔ جس نے جانوں کی قربانیوں کے باوجود پختونوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے خود اس تنظیم کے لئے بے پناہ مسائل پیدا کئے
سیاسی جماعتوں سے سوال پوچھو تو ان کے کارکن تڑپنے لگتے ہیں۔ خود مرید ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب ان کی طرح مرید بنیں۔
مولیوں نے ایک بار پھر کم عمر لڑکیوں کی شادی کے حق میں آواز اٹھائی ہے۔ سینیٹ میں ایمل ولی خان نے بھی مذہب کا حوالہ دے کر ان کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔ کل یہ سارے مل کر لونڈیوں کو رکھنے اور ان کی کاروبار کا بھی مذہبی اور سنت کاحوالہ دے کر مطالبہ کریں گے۔
Many actions permissible in religion now are considered henious crimes under human rights & international laws. For example, in wars making women Sex slaves & men slaves as booty, selling and byuing them. Cutting off a thief's hand. Corporal punishment & gender based violence.
مذہب میں بہت سارے ایسے کام جائز ہیں۔ لیکن اج کل ان کو انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین میں سخت جرم شمار کیے جاتے ہیں۔مثلا جنگوں میں مال غنیمت کے طور پر عورتوں کو لونڈیاں بنانا اور مردوں کو غلام بنانا اور پھر انکی خریدو فروخت کرنا۔ چور کا ہاتھ کاٹنا اور بچوں اور عورتوں پر تشدد
کچھ سیاسی معذوروں کو چلنے پھرنے کے لئے سیاسی ویل چیئر کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ ویل چیئر کبھی نواز لیگ کبھی پیپلز پارٹی اور کبھی تحریک انصاف مہیا کرتے ہیں۔
جو بھی سیاسیتدان یا حکمران جب صحیح موقف اپناتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور مکرنے کی صورت میں وہ بات اسے یاد کرانی چاہئے۔ باقی آج کل سارے سیاستدانوں کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ اسٹبلشمنٹ سے ساز باز بڑھاو اور اسلام آباد تک رسائی حاصل کرو۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایسا کچرہ بھر دیا گیا ہے جن سے انصاف اور انسا یت کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ بلاسفیمی کیسز کی سرکاری سطح پر غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونے میں کونسی غیر ائینی اور غیر قانونی بات تھی جسے دو کچرا ججوں نے روک دی۔
ھارون صاحب ٹی ٹی پی کا نظام پشتون خواتین کی تذلیل نہی ریاست کے منہ پر زناٹے دار طماچہ ھے ایک ریاست جو اپنے شہریوں کو ان وخشیوں سے محفوظ رکھنے میں بری طری ناکام ھو۔ بنانا ریاست کہا جاتا ھے۔۔ اور یہ وخشی ایک زمانے میں ریاستی لوڑے تھے۔ جو عوام کے کندھوں پر بار کئے ہیں
ٹی ٹی پی کا نظامِ ظلم: پشتون خواتین کی تذلیل کا بھیانک منظر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ایک ایسا نظام نافذ کرنا چاہتی ہے جہاں انصاف کے نام پر ظلم کیا جائے اور خواتین کی عزت کو سرِ عام پامال کیا جائے۔ حال ہی میں سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ایک…
پختونخوا میں سیاسی جرگوں اور آل پارٹیز کانفرنسوں کا موسم ہے۔

انصاف په تاسو اسفندیارخان۔ پی ټی ایم سره د اختلاف وجه د هغوي ریاستی ادارو ته بد رد ویلو ته د تشدد بیانیه ویلي وہ. هغه وفرمائیل باچا خان ما تہ وئیل چی عدم تشدد یوازي دا نه دي چي تہ بل سړی له پړق، لته به نه ورکوي ولي ستا د ژبي ، سترګو نه به هم بل سړي محفوظ وی د لاس او پښو نه خود
بلوچوں کے مسنگ پرسنز کے احتجاج ہر دور میں پنجاب اور پاکستان کے سیاسی ڈرامہ بازوں کے لیے فوٹو شوٹ اور کیرئیر بلڈنگ کیمپ ہوتے ہیں۔ مریم نواز تا خدیجہ شاہ ایک ہی تسلسل ہے۔ پنجابی پاور ایلیٹ بلوچ کاز کو فوج کو چڑانے کے لئے استعمال کرتی ہے۔ جونئی طاقت ملتی۔ انکے خلاف استعمال کرتے۔
پختونخوا صوبائی حکومت اور اے این پی نے 24 اور 26 جولائئ کوجرگوں کے نام پر سیمینار بلائے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور حکومت نے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کے حل کے لئے مجوزہ سیاسی حکمت عملی، اپنے منشور اور ذمہ داریاں بھلا کر این جی اوز کا طریقہ کار سیمینار منعقد کرنا شروع کیا ہے۔
سب کو علم ہے کہ بیرسٹر سیف کون ہے اس کی تاریخ اور جغرافیہ کیا ہے، اس کی تاریں کہاں سے ہلتی ہیں لیکن غیر منتخب ہوکر بھی پختونخوا کی حکومت چلا رہا ہے۔ چونکہ عمران خان اسٹبلشمنٹ کے پاوں پڑنا چاہتا ہے اس لئے اسے خوش فہمی ہے کہ یہ سہارا بنے گا۔ اس لئے اس کو اپم ذمہ داریاں دی ہیں۔